
آج کی بات
تحریر۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
(قسط نمبر ۱)
انسان کی عظمت اور شرف جس فضیلت یا بنیاد پر قائم ہے ہم واقف ہونے کے با وجود نہیں جانتے۔ سب جانتے ہیں کہ نسلِ انسانی کے جد ِامجد حضرت آدم ؑہیں ۔ اُس زمانے میں شعور آج کے شعور کے مقابلے میں دودھ پیتے بچے جیسا تھا۔ اُس وقت آد م ؑکی اولا د معاشرت یعنی مکان، لباس اور خوراک کے متعلق نہیں جانتی تھی ۔ شعور اتنا کم تھا کہ وہ درختوں پر بسیرا کرتا تھا۔ اولا دِآد م ؑخودرو پودوں، جڑوں اور پھلوں کو بطور غذا استعمال کرتی تھی ۔ درختوں کے بڑے بڑے پتے اور جانوروں کی کھال ان کا لباس تھا۔ شعور نے ترقی کی تو درخت ، غاروں اور پتھر کے دور سے معاشرت اور بود و باش کا آغاز ہوا۔ آگ کی دریافت سے انسان دھات اور لوہے کے دور میں داخل ہوا اور اس طرح ترقی کرتے کرتے شعور پروان چڑھا۔
اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو توحید پر قائم رکھنے کے لئے انبیائے کرام کا ایک سلسلہ جاری فرمایا۔ انبیائے کرام تشریف لاتے اور ان کی تعلیمات پرعمل ہوتا لیکن جیسے ہی وہ پردہ فرماتے اور کچھ وقت گزرتا نوعِ انسانی کی اکثریت گمراہی میں مبتلا ہوجاتی ۔ لوگ انبیا کی تعلیمات میں اپنی مصلحت اور ضروریات کے مطابق تحریفات کردیتے۔ انبیائے کرام کے بعد ہر دور میں ایک ایسا گروہ آتا رہا جو ان کی تعلیمات میں اپنے ذاتی مفاد کے مطابق معنی پہناتا رہا۔ ان مطلب پرست افراد کی چالاکی اور عیاری سے جادو اور بت پرستی کا دور شروع ہوا۔ بت پرستی اور جادو کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان بتوں کے درمیانی حفِظ مراتب کا خیال رکھا گیا۔ چھوٹا بت، بڑا بت اور سب سے بڑابت۔ بت پرستی کے کسی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بتوں کا کسی ان دیکھی ہستی سے تعلق قائم نہ رکھا گیا ہو۔
تمام تر مظاہر پرستی، بت پرستی، مادہ پرستی ، آتش پرستی، ستاره پرستی اور شرک یا کفر کے باوجود تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں اللہ کا تصور غالب نہ ر ہا ہو۔ تاریخ میں عبرانی، سر یانی ، کلدانی ، حمیری، عربی اور دیگر اقوام کا تذکرہ موجود ہے ان قصائص میں اللہ تعالی کا تصور ہمیشہ غالب رہا۔
بت پرستی اور شرک میں بھی آدمی مجبور ہے کہ وہ ایک مافوق الفطرت ہستی کا تذکرہ کرے۔ شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سید نا حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت تک معاشرتی ترقی اور انسانی ذہن کے ارتقا کے باوجود، شعوری پستی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بیت اللہ شریف میں
390 , 360 بت رکھے ہوئے تھے۔
اہل ِمکہ کی ذہنی پستی اور شعوری جہالت کی انتہا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ہاتھ سے تراشے گئے سونے چاندی کے سکوں سے خریدے ہوئے بتوں کو رب مانتے اور ان کو پوجتے تھے۔ ڈرتے تھے بتوں کی بے حرمتی ہوگئی تو نقصان ہو گا۔ منتوں اور مرادوں کا سہارا لیا جاتا۔ چڑھاوے اور قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ دودھ بتوں کو پلانے کے لئے رکھا جاتا لیکن کتے، بلیاں اور مکھیاں پیتی تھیں ۔ اس دور میں دوسری اقوام اور مذاہب کے افراد کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق بیت اللہ میں عبادت۔۔۔ جاری ہے۔
ماہنامہ قلندر شعور