
ور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف ابن صیاد نام کا ایک لڑکا مدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پاکر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا ۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سر گرمیاں عوام میں بیان کر دیتا۔
جب حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا۔
آؤ، ذرا ابن صیاد کو دیکھیں!
اس وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا ۔حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس سے سوال کیا۔ بتا! میں کون ہوں ؟
وہ رکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا ۔
آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔
حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فر مایا۔
تیرا علم نا قص ہے تو شک میں پڑ گیا۔اچھا بتا! ۔۔۔ میرے دل میں کیا ہے؟
اس نے کہا۔
دخ ہے۔۔(ایمان نہ لانے والا ) یعنی آپ ﷺ میرے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلٰوۃ نے فرمایا ۔
پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا ۔ تو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔
یارسول اللہ ﷺ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔
حضور علیہ الصلٰوۃ نے جواب دیا ۔
اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پاسکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔اس کو چھوڑ دو۔
ابن صیاد کی طرح کسی بھی صاحب استدراج کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حددو ں سے گزار کر اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے دست مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔اور ان کنکریوں کی آواز حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ نے بھی سنی۔ آج کے سائنسی دور میں اس معجرہ کی سائنسی تشریح پیش کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
سنگریزوں نے کلمہ پڑھا:
ایک دوپہر حضرت عثمان غنی ؓ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی وہاں موجود تھے۔
حضور ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا ، تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ انہوں نےعرض کیا، اللہ اور رسول کی محبت ، اس سے قبل حضرت ابو صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے استفسار پر یہی جواب دے چکے تھے ۔اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سات یا نو کنکریاں ہاتھ میں لیں تو ان کنکریوں نے حضور ﷺ کے دست مبارک میں تسبیح پڑھی جس کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی۔
حضور ﷺ نے یہ کنکریاں علیحدہ علیحدہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ہاتھوں میں دیں تو کنکریوں نے سب کے ہاتھوں میں تسبیح پڑھی۔
آواز کی فریکوئنسی:
آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطہ کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔آواز کی بدولت ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بہت سی آوازیں ایسی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتی ۔یہ آوازیں ہماری سماعت سے ماوراء ہیں۔
پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج ، صنعت و حرفت تحقیق و تلاش کیلئے الٹرا ساونڈ و پوز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ صدائے باز گشت کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی مختلف حالتوں کے درمیان امتیاز کر سکتی ہیں۔
انسان کی سماعت کا دائرہ بیس ہر ٹز(20 Hertz)سے بیس ہزار ہر ٹز فریکوئنسی تک محدود ہے۔جبکہ ورائے صوت موجوں کو فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹز (Hertz)سے دو کڑور ہرٹز(Hertz) تک محدود ہو سکتی ہے ۔اس لئے ہمارے کان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے ۔
موجوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ جب میں ذرات سکڑتے ہیں اور پھلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں، موجوں کی اقسام کی تقسیم فریکوئنسی اور طول موج کو بنیاد پر کی گئی ہے۔
موج مخصوص فاصلہ کو اوپر نیچے حرکت ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول موج کہلاتا ہے طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ ، دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر (cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سکینڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل ایک نقطے میں سے گزرتے ہیں تو وہ موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے۔ طول موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طول موج کم ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔
ریڈیائی اور مقنا طیسی لہریں :
ریڈیا ئی لہریں کم فریکوئنسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں اور ٹی وی نشریات زیادہ فریکوئنسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں۔ برق مقاطیسی لہروں کو آواز کی موجوں کی طرح سفر کرنے کے لئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ پانی اور ہوا کے بغیر بھی آگے بڑہتی رہتی ہیں اور خلا ء میں آگے بڑھنے میں انہیں دقت پیش نہیں آتی۔
فریکوئنسی اگر بہت بڑھ جائے تو موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں جو سیدھی چلتی ہیں ۔ کم طول موج اور زیادہ فریکوئنسی ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثنا بیان کرتی ہے۔ یعنی کائنات میں موجود ہر شئے بولتی سنتی اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔
ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کررہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۴۴)
کہکشانی نظاموں کا کمپیوٹر:
کائنات میں ہر فرد قدرت کا بنا ہوا کمپیوٹر ہے اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے متعلق تمام اطلاعات فیڈ ہیں اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں ذخیرہ ہیں۔کہکشانی نظاموں میں جاری و ساری یہ اطلاعات ، لہروں کے دوش پر ہر لمحہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ ہر موجود شے کا دوسری موجود شے سے لہروں کے ذریعہ اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔سائنس دان روشنی کی رفتار کو زیادہ سے زیادہ تیزر فتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زبانی مکانی فاصلوں کو منقطع کردے۔ زمانی مکانی فاصلے لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات، فرشتوں ، آسمانوں اور زمین سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو انسان فرشتوں ، جنات، درخت ،پہاڑ،سورج اور چاند کا تذکرہ نہیں کر سکتا ۔کہکشائی نظام اور کائنات میں جتنی بھی نوعیں اور نوعوں کے افراد کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔اسی طرح ہماری زندگی سے متعلق تما م خیالات لہروں کے ذریعہ ہرمخلوق کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔یہ الگ بات ہے انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف نہ ہوں۔
خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ہم کسی آدمی یا کسی مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ مخلوق کے فرد کی لہریں ہمارے اندر دور کرنے والی لہروں میں جذب ہو رہی ہیں۔انسان کا لا شعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔اس رابطہ کے ذریعہ انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرہ تک پہنچا سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہو سکتا ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ انسان اس قانون سے واقف ہو جائے کہ کائنات کی تمام مخلوق کا خیالات کی لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے۔ خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی سے دور کر دیتی ہے۔