
مراقبہ کی تعریف:
مراقبہ کی تعریف مختلف طریقوں سے بیان کی جاتی ہے:
۱)تما م خیالات سے ذہن کو آزاد کرکے ایک نقطہ پر مرکوز کردیا جائے۔
۲) جب مفروضہ حواس کی گرفت انسان کے اوپر سے ٹوٹ جائے تو انسان مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔
۳) جب انسان اپنے اوپر بیداری میں خواب کی حالت طاری کرلے تو وہ مراقبہ میں چلا جاتا ہے۔
۴) یہ بات بھی مراقبہ کی تعریف میں آتی ہے کہ انسان دور دراز کی باتیں دیکھ اور سن لیتا ہے۔
۵) شعور ی دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا میں جب انسان داخل ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت بھی مراقبہ کی ہے
۶) مراقبہ میں بندہ کا ذہن اتنا زیادہ یکسو ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے ۔
۷) ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ مراقب یہ دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔
انسان کی روح میں ایک روشنی ایسی ہے جو اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتنا ہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔اگر اس لا متناہی روشنی کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو اس لامحدود روشنی میں مفید تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنی موجودات کی ہر چیز کا احاطہ کرتی ہے ۔ اس کے احاطے سے باہر کسی وہم ، خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں۔ روشنی کے اس دائر میں جو کچھ واقع ہواتھا یا بحالت موجود ہ وقوع میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب ذات انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔
چراغ کی لو:
اس روشنی کی ایک شعاع کا نام باصرہ ہے۔یہ شعاع کا ئنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔
کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔جہاں اس چراغ کی لو کا عکس پڑتا ہے وہاں اردگرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے ۔اس چراغ کی لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی ،کہیں ہلکی کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے ۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا توا ہم پیدا ہوتا ہے ۔ تو اہم لطیف ترین خیال کو کہتے ہیں ۔ جو صرف اور اک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔
جن چیزوں پر لو کی روشنی ہلکی پڑتی ہے ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہو تا ہے۔ جن چیزوں پر لوکی روشنی تیز پڑتی ہے ۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تصور قدرے نمایاں ہو جاتا ہے جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ لیتی ہے۔
وہم ، خیال اور تصور کی صورت میں کوئی چیز انسانی نگاہ پر واضح نہیں ہوتی اور نگاہ اس چیز کی تفصیل کو نہیں سمجھ سکتی۔
شہود:
شہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو، نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شہود ایسی صلاحیت ہے جو ہلکی سے ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتی ہے تاکہ ان چیزوں کو جواب تک محض تو اہم تھیں ، خدوخال ، شکل و صورت ، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جا سکے۔ روح کی وہ طاقت جس کا نام شہود ہے وہم کو ، خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو نگاہ پر منکشف کر دیتی ہے۔
بصارت :
شہود میں برقی نظام بے حد تیز ہو جاتا ہے اور حواس میں روشنی کا ذخیرہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس روشنی میں غیب کے نقوش نظر آنے لگتے ہیں ۔یہ مرحلہ شہود کا پہلا قدم ہے ۔ اس مرحلے میں سارے اعمال باصرہ یا نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی صاحب شہود غیب کے معاملات کو خدوخال میں دیکھتا ہے۔
سماعت :
قوت بصارت کے بعد شہود کا دوسرا مرحلہ سماعت کا حرکت میں آنا ہے ۔ اس مرحلہ میں کسی ذی روح کے اندر کے خیالات آواز کی صورت میں صاحب شہود کی سماعت تک پہنچنے لگتے ہیں۔
شامہ اور لمس :
شہود کا تیسرا اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کے برابر ہو ، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔
ایک صحابی ؓ نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں اپنی طویل شب بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یارسول اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام ! میں آسمان میں فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھتا تھا۔ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:
اگر تم شب بیداری کو قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ بھی کرتے ۔
دور رسالت علیہ الصلوٰۃ و السلام کے واقعہ میں شہود کے مدارج کا تذکرہ موجود ہے۔ فرشتوں کو دیکھنا باصرہ سے تعلق رکھتا ہے اور مصافہ کرنا لمس کی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جو باصرہ کے بعد بیدار ہوتی ہے۔
شہود کے مدارج میں ایک ایسی کیفیت وہ ہے جب جسم اور روح کی واردت و کیفیات ایک ہی نقطہ میں سمٹ آتی ہے اور جسم روح کی تحریکات سے براہ رات متاثر ہوتا ہے۔
حضرت معروف کرخیؒ:
صوفیاء کے حالات میں اس طرح کے بہت سے واقعات موجود ہیں ۔ مثلاً ایک قریبی شناسا نے حضرت معروف کرخیؒ کے جسم پر نشان دیکھ کر پوچھا کہ کل تک یہ نشان موجود نہیں تھا آج کیسے پڑ گیا ۔حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا کہ کل رات نماز میں ذہن خانہ کعبہ کی طرف چلا گیا ۔ خانہ کعبہ میں طواف کے بعد جب چاہ زم زم کے قریب پہنچا تو میرا پاؤں پھسل گیا او ر میں گر پڑا ،
مجھے چوٹ لگی اور یہ اسی چوٹ کا نشان ہے۔
ایک بار اپنے مرشد کریم ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کے جسم پر زخم کا غیر معمولی نشان دیکھ کر میں (خواجہ شمس الدین عظیمی) نے اس کی بابت دریافت کیا۔حضور قلند ر بابا اولیاء ؒ نے بتایا ۔ رات کو روحانی سفر کے دوران دو چٹانوں کے درمیان سے گذرتے ہوئے چٹان میں نکلی ہوئی ا یک نوک جسم میں چبھ گئی تھی ۔
جب شہود کی کیفیات میں استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو روحانی طالب علم غیبی دنیا کی ا سیر اس طرح کرتا ہے کہ وہ غیب کی دنیا کی حدود میں چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو دنیا میں کرتا ہے۔
سیریا معائنہ:
صوفی جب مراقبہ کے مشاغل میں پوری طرح انہماک حاصل کر لیتا ہے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکتاہے اور اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کے تحت اپنی قوتوں کا استعمال کر سکتا ہے ۔وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سا ل بعد کے واقعات دیکھنا چاہےتو دیکھا سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے سے موجود تھا ، یا آئندہ ہو گا اس وقت بھی موجود ہے ۔ شہود کی اس کیفیت کو تصوف میں سیریا معائنہ کہتے ہیں۔
تصوف کا طالب علم ،، سالک ،، جب اپنے قلب میں موجود روشنیوں سے واقف ہو جاتا ہے اور شعوری حواس سے نکل کر لاشعوری حواس میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے فرشتے نظر آ نے لگتے ہیں وہ ان باتوں سے آگاہ ہو جاتا ہے جو حقیقت میں چھپی ہوئی ہیں ۔ صوفی پر عالم امر (روحانی دنیا) کے حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کسی قسم کی روشنیاں اور روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے انوار کس طرح استعمال ہو تے ہیں ۔ پھر اس کے ادراک پر وہ تجلی منکشف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔