
احمد رضا خان بریلوی کی پیدائش
مولانا احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔ احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے۔ امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزا رہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں۔
دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔
شحرہ نسب احمد رضا خان آپ کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ بڑيچ سے ہے۔ آپ کے جد اعلیٰ سعید اللہ خان قندھار کے پٹھان تہے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ لاہور کا شیش محل انہی کے زیر اقتدار تھا۔ آپ کو مغل بادشاہ نے شش ہزاری کے منصف سے سرفراز کیا اور شجاعت جنگ کا خطاب دیا۔
مولانا نے چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر پر مجمع کے سامنے میلاد شریف پڑھا۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد مولانا نے اپنے والد مولانا نقی علی خان سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک عالم دین ہو گئے۔ 14 شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں مولانا کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد نے مولانا کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت ان کے سپرد کی۔ جسے مولانا نے 1340ھ مطابق 1921ء اپنی وفات کے وقت تک جاری رکھا۔
رسم بسم اللہ خوانی کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں جب کہ عموما دو سرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول شریف کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد مرزا غلام قادر بیگ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، پھر آپ نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ اسی دن مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا۔ جواب بالکل صحیح تھا۔ والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع وقاد دیکھ کر اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کردی۔ آپ نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیر ہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ عبد العلی رامپوری سے پڑھا، پھر آپ نے کسی استاذ سے بغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کے اساتذہ کی فہرست تو بہت مختصر ہے لیکن مولانا نے بہت سے فنون میں کتابیں لکھیں سید ظفر الدین بہاری نے 1327ھ مطابق 1909ء میں مولانا کی تصانیف کی ایک فہرست بنام المجمل المعدد لتالیفات المجدد مرتب فرمائی اور آخر میں ایک جدول پیش کی جس میں ان سبھی علوم و فنون کا نام ہے جن میں 1327ء تک مولانا کتابیں تصنیف کیں۔
مولانا نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی ساری زندگی اسلام کے خدمت اور سنیت کی اشاعت میں صرف فرمائی اور تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں جن میں فتوی رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب ہے۔ مولانا نے قرآن مجید کا صحیح ترجمہ اردو میں تحریر فرمایا جس کو عالم اسلام کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کہتی ہے۔
احمد رضا خان کے زمانے میں کئی مکاتب فکر اور فرقے کے لوگ ظاہر ہوئے تھے جن کے بارے میں ان کا تجزیہ تھا کہ وہ اسلام و سنیت کے خلاف دھوکے کا جال بچھا کر بھولے بھالے مسلمانوں میں خوب گمراہی پھیلا رکھی تھی۔ آپ نے دین و شریعت کی حمایت میں ان مبینہ طور گمراہ گروہوں سے اور حق و باطل کو خوب واضح کر کے پیش کرنے کی کوشش کی۔
آپ کے فتاوے اور کتابوں کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہزاروں مسلمانوں کو حلقہ بگوش کیا۔ بہت سے وہ علما جودوسرے مسلکوں کے سیلاب میں بہتے جا رہے تھے آپ کی رہنمائی سے متاثر ہوئے۔ جب کچھ دوسرے مسلکوں کے لوگوں نے سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شان میں گستاخی اور توہین کتابوں میں لکھ کر شائع کی اور مسلمانوں کو بگاڑنا شروع کیا تو آپ نے اٹل پہاڑ کی طرح جم کر سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی محبت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخی کرنے والوں کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی۔
آپ نے کم و بیش پچاس[15] مختلف علوم فنون پر ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔
نعت گوئی
آپ نے اردو، عربی، فارسی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت نگاری کی۔
آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے، پہلے دو جلدیں آپ کی حیات میں اور تیسری، بعد از وفات جمع کر کے کلام شائع کیا گيا، مگر اس میں رضا کا تخلص رکھنے والے ایک دوسرے عام سے شاعر کا عامیانہ کلام بھی در آیا، جس پر کافی تنقید ہوئی، جس کو تحقیق کے بعد نکال دیا گیا۔ حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی جس نے اپنے بعد آنے والے تمام نعت گوؤوں کو ایک ادب کا جامہ پہنا دیا، ورنہ اس سے پہلے اردو نعت صرف عقیدت کے طور پر دیواں کے شروع میں شامل نظر آتی، مگر حدائق بخشش کے بعد اردو نعت ادب کا ایک مستقل حصہ بنا، جس کی نعتیں آج بھی مشہور و معروف ہے۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پے لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
بہت مشہور ہے
عربی کلام
عربی کلام بساتین الغفران کے نام سے موجود ہے۔
فارسی کلام
آپ کا فارسی کلام ارمغان رضا کے نام سے، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا نے پہلی بار، 1994 میں شائع کیا، اس میں حمدو نعت، قصاہد و مناقب اور رباعیات شامل ہیں۔
یا رب زمن بر شہ ابرار درودی
برسید و مولائی من زار، درودی
بر آبروی آن قبلہ قوسین سلامی
بر چشم خطا پوش، عطا بار، درودی
کنزالایمان ترجمہ قرآن شریف
آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔ ۔ آپ کے ترجمہ کا نام "کنز الایمان” ہے۔ جس پر آپ کے خلیفہ سید نعیم الدین مراد آبادی نے حاشیہ لکھا ہے۔ اس ترجمہ کو اب تک انگریزی (میں تین بار)، ہندی، سندھی، گجراتی، ڈچ، بنگلہ وغیرہ میں ڈھالا جا چکا ہے۔
25 صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستانی کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
پیدائش 14 جون 1856 بریلی
وفات 28 اکتوبر 1921 (65 سال)