
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھانت بھانت کی بولیاں کیوں؟
کوئی خوش تو کوئی آزاد فیصلوں کا حامی حکومت رہے گی یا نہیں جیسے تبصرے
سکندر سلطان جیسا سربراہ ہوتو فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہی آتے ہیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔تجزیہ۔۔۔شہزاد قریشی ) الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈسکہ الیکشن کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم جاری کردیا گیا ارباب اقتدار کا نعرہ ہے ہم نے اداروں کو آزاد کیا ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں، اپوزیشن نے بھی فیصلے پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ اسے تاریخی قرار دیا۔ قارئین بات اداروں کی نہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ ادارےکا سربراہ کون ہے جب اداروں کے سربراہ سکندر سلطان راجہ جیسے ہوں گے تو پھر فیصلہ آ ئین اور قانون کے عین مطابق ہوں گے۔ سکندر سلطان راجہ اس سے قبل مختلف عہدوں پر فائز رہے ملکی سیاست میں اس وقت اس فیصلے کو لے کر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ سینٹ الیکشن کے بعد حکومت صبح گئی یا شام گئی والی بات ہے جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ۔ ہر وہ سیاسی خود ساختہ لیڈر جس کا دامن کرپشن اور جرائم سے آلودہ ہے ان سے ہی قومی مسائل کا حل پوچھا جاتا ہے۔ اور ان کی باتوں میں افلاطون اور سقراط کا فلسفہ بھی تلاش کرلیا جاتا ہے۔ تاہم ارباب اقتدار نے تشویش میں مبتلا کر دیا قومی مسائل حل ہوئے نہ ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے جن سے قومی مسائل حل نہیں ہوئے ان سے بین و الاقوامی مسائل کیسے حل ہونگے عرب ممالک اپنا قبلہ درست کرنے میں لگے ہیں اپنی معاشیات کو عالمی سماجیات کیساتھ ہم آہنگ کررہے ہیں ۔ عرب ممالک ہماری داخلی سیاست میں اثر انداز بھی ہوتے ہیں ملک اس وقت چین امریکہ عرب ریاستوں اور افغان سیاست کا مرکز ہے سب اپنا اپناکھیل کھیل رہے ہیں ۔ ہمیں اپنے مفادات کو تر می دینا ہوگی امریکی صدر جوبائیڈن نے روس اور چین دونوں کو امریکا کیلئے خطرہ قرار دیا ہے مغربی مما لک پر زور دیا ہے کہ وہ ان دونوں ممالک کیخلاف متحد ہو جائیں۔ اس وقت ہمیں بدلتی ہوئی عالمی سیاسی و صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا اس کیلئے معیشت کا مستحکم ہونا لازمی ہے۔