
منقول ہے کہ آپ ؒ کی ولادت سے قبل حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خواب میں ”علی“نام رکھنے کا حکم فرمایا !
پھر نبیٔ اکر م ، نورِمُجسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں تشریف لاکر”احمد“ نام رکھنے کا حکم فرمایا یوں آپ ؒ کا نام علی احمد رکھا گیا آپ ؒ کی ولادت کے بعد ایک بزرگ آپ ؒ کے والد گرامی سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور آپ کو دیکھ کر فرمایا ”یہ بچہ علاءُالدّین کہلائے گا
“ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ماموں حضرت بابا فریدالدّین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ ؒ کو صابر کا لقب عطافرمایا !
ہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کو ”علاءُ الدّین علی احمد صابر“ کے نام سے شُہر ت حاصل ہے _
حضرت سیّدنا علاءُالدّین علی احمد صابر کلیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ تلاوت ِ قرآن اور ذکرِ الٰہی سے مُعطررہتا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلا وہ لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہُ تھا _
بچپن میں ایک دن حضرت صابرِ پاک ؒ نے بابا فریدُالدّین گنج شکررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کیا _! آج سے تین سال بعد میرے دادا جان وصال فرما جائیں گے یہ سن کر بابافریدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا بیٹا! آپ کے دادا تو بغداد شریف میں ہیں اور آپ یہاں ؟
پھر آپ کو کیسے معلوم ہواکہ تین سال بعد ایسا ہوگا عرض کی ! ابھی میں نے اپنے قلب کی طرف دیکھا تو والدِ ماجد کی صورت سامنے آگئی اور آپ نے سیدھے ہاتھ کی تین انگلیاں میری طرف اٹھائیں اوریہ دادا جان کے وصال کااشارہ ہے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کی فراست دیکھ کر آپ ؒ کو سینے سے لگا لیا _
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں !
عارفوں کا مقام بہت بلند ہے جب وہ اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دنیا و ما فیہا یعنی ! جو کچھ دنیا میں ہے ! اس کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں _
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!
خلافت کی عظیم ُالشّان محفل
رمضان المبارک میں بعد نمازِ تہجدحضرت بابا فریدُالدّین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کچھ دیر کے لیے آرام فرماہوئے تو آپ ؒ کی آنکھ لگ گئی _ آپ ؒ نے دیکھا کہ ایک ایسے مقامِ پُر انوار میں اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ قطبُ الدّین بختیار کاکی ؒ کے ہمراہ موجود ہیں کہ ہر طرف نور ہی نور ہے _ ایک عالی شان دربارسجا ہے نبی ٔ رحمت شفیع ِامت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جلوہ افروز ہیں _ نیزسلسلۂ چشتیہ کے تمام بزرگ بھی حسبِ مراتب اپنی اپنی نشست گاہوں پر موجود ہیں _ حضرت بابا فرید ؒ کے پیرو مرشدحضرت خواجہ قطبُ الدّین بختیار کاکی ؒ نے حکم دیا ! مخدوم علی احمد صابر کو آقائے دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کیجئے _ آپ ؒ نے حسبِ ارشاد حضرت علی احمد صابر ؒ کو بارگاہ ِ رسالت میں پیش کردیا _ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علی احمد صابر ؒ کی پُشت پر سیدھے کندھے کی جانب بوسہ دیا اور فرمایا !
’’ ہٰذَا وَلِیُ اللہ‘‘اس کے بعد وہاں موجود تمام بزرگوں اور ملائکہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اتباع کرتے ہوئے اُسی مقام پر بوسہ دیا اور یہ کہا ’’ہٰذَا وَلِیُّ اللہ‘‘
پھر ہر طرف سے مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا _
ان مبارک باد کی صداؤں سے بابا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی آنکھ کُھل گئی _
اگلے روزحضرت بابافریدُالدّین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک عالی شان محفل کا اِنعقاد فرمایا جس میں حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی ، حضرت شیخ حمید الدّین ناگوری ، حضرت شاہ منور علی اِلٰہ آبادی، حضرت شیخ بہاءُالدّین زکریا ملتانی ، حضرت شیخ ابو القاسم گرگانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن وغیرہ بڑے بڑے علماء اور اولیا شریک ہوئے _ ان تمام اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلام کی موجودگی میں حضرت بابا فریدُالدّین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا خواب بیان فرمایا !جسے سنتے ہی وہاں موجود تمام بزرگوں نے یکے بعددیگرے آپ ؒ کی مہرِ ولایت کو بوسہ دیا اور
’’ہٰذَا وَلِیُّ اللہ‘‘ کہہ کر مبارک باد دی _
اس کے بعد حضرت بابا فریدُالدّین گنج شکررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے شیخ مخدوم علی احمد صابر ؒ کو خاندانِ چشتیہ کی امامت و خلافت عطا فرماکراپنے دستِ مبارک سے اپنی بابرکت ٹوپی پہنائی اور سبز سبز عمامے سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دستار بند ی فرمائی پھرکلیر شہر کی ولایت و خلافت کی سند سب حاضرینِ محفل کو سنا کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو عطا فرمائی _