بیعت کی لغوی معنیٰ حوالے کرنا سپرد کرنا فروخت کرنا ہیں. تصوف میں مرید کا اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر اپنے نفس کو سپرد کرنے اور فروخت کرنے کا نام بیعت ہے یعنی اپنے تمام تر ارادوں و اختیارات اور خواہشات نفسانی کو ختم کرکے خود کو شیخ کامل کے حوالے کردے اور راہ سلوک میں اس کی رضا و منشا کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھائےخوش نصیب تھے وہ صحابہ كرام وہ لوگ جنہوں نے حضور نبى كريم صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو دیکھا آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کیا آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے علم و عمل سیکھا اور آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی صحبت میں زندگیاں گزاریں آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی قربت و صحبت ہی کافی تھی صحابہ كرام کے دلوں کو روشن کرنے کے لیے بیشتر صحابہ كرام سے کرامات اور صاحب کشف ہونا ثابت ہےپھر آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اس ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے اور وہ نور باطن جو آپ صلى الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے سینہ انور سے صحابہ كرام کو براہ راست منتقل ہوتا تھا اس کی فیض رسانی کا ظاہری سلسلہ منقطع ہو گیا تابعین نے صحابہ كرام سے نور باطن حاصل کیا اور بعد میں آنے والوں نے تابعین سے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ نور باطن ماند پڑتا گیا اور سینے خالی ہوتے چلے گئے اس نور کے خلاء کو پر کرنے کے لئے بزرگ حضرات نے کلام پاک سے کچھ وظائف ترتیب دیے تزکیہ نفس کے کچھ مجاہدے تشکیل دیے اور اپنے شاگردوں کو ان کے ذریعے تربیت دینی شروع کی. ساتھ اپنے منور سینوں سے شاگردوں کے سینوں کو روشن کرنا شروع کی تزکیہ نفس مجاہدہ اور کلام پاک کے وظائف سے جب شاگرد پاک قلب اور نفس کے ذریعے استاد کے سینے سے نور باطن حاصل کرتے رہتے تو ایک وقت یہ آتا جب ان کا کنیکشن نور نبی سے قائم ہو جاتا اور نور الله سے. جس کی نسبت سے شاگرد بھی صاحب کرامت و کشف ہو جاتے جسے اسلام نے مومن کہا ہے.نماز مومن کی معراج ہے مطلب مومن نماز میں الله سے ملاقات کرتا ہے مومن کی فراست سے ڈرو وہ الله کے نور سے دیکھتا ہے.مطلب الله سے ملاقات اور الله کے نور سے دیکھنے کے لیے بیعت کی جاتی ہےتصوف میں بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارھی ھے دونوں کی طرف سے ایک معاھدہ ھے، جس کے معنی یہ ھيں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت اور پیروی کرے گاتصوف میں استاد کو مرشد اور شاگرد کو مرید کہتے ہیں. مطلب یہ استاد شاگرد کا رشتہ ہے کوئ نئی چیز نہیں ہے. اور تصوف کی تعلیم مسلمان سے مومن بننے کی تعلیم ہے, کوئ الگ چیز نہیں بلکہ عین دین ہے.جس طرح اسلام میں علم حدیث ایک علم ہے جس کا مقصد حدیث کی تعلیم دینا ہے, علم فقہ ایک علم ہے جس کا مقصد فقہ کی تعلیم دینا ہے بلکل اسی طرح علم تصوف ( احادیث میں تصوف کے لیے "علم احسان” کا لفظ آیا ہے) بھی اسلام کا یہ ایک شعبہ ہے جس کا مقصد مسلمان کو مومن بننے کی تعلیم و تربیت دینا ہے.بیعت کا فائدہ:صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں کہ بیعت فلاح باطنی کے لیے ہے جس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اپنے اندر کو خراب و پلید چیزوں سے پاک کرکے اسے روشن کیا جائے اور اپنے دل سے شرک خفی کو نکالا جائے۔ تو جب بھی کوئی مرید نیت صحیحہ و اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اس کی صحبت میں رہ کر تمام آداب کو بجا لاتا ہے تو شیخ کامل کی باطنی نظر سے روحانی فیوض و برکات اس مرید کے قلب و باطن میں سرایت کرجاتے ہیں اور مرید کا باطن روشن و منور ہوجاتا ہے۔ اس روحانی و باطنی انوار و تجلیات کا حصول شیخ کامل کی محبت و صحبت پر ہی منحصر ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب مرید شیخ کامل کی خدمت و صحبت میں حاضری کے وقت اپنے قلب و روح کو تمام تر توجہ کے ساتھ پیر کی طرف مرکوز رکھے تاکہ شیخ کامل کی پاکیزہ فطرت و وظائف باطنی کے تناسب سے مرید کے اندر بھی روحانی ربط و ضبط بڑھتا رہے اور وہ عروج حاصل کرتا ہوا خدا کا قرب حاصل کرلے مگر سالک ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ ان تمام منازل روحانی کا دارومدار شیخ کامل کی بیعت و صحبت میں ہی منحصر ہےبیعت ہونے کی دیگر وجوہاتبیعت کا اصل مقصد اور فائدہ تو اوپر بیان ہو چکا ہے. لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ ان مقاصد کے لیے بھی بیعت ہوتے ہیں.1 دنیاوی زندگی میں برکت اور مسائل کے حل کے لیے.بےشک کامل ولی کے ہاتھ پر بیعت ہونے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے دولت رزق صحت علم غرض ہر چیز میں برکت ہوتی الله کی رحمت میں آنے کے لیےالله کے قرب والوں کی صحبت اور بیعت سے الله کی رحمت ملتی ہے شیطان سے پناہ کے لیے. شریعت کی پابندی اور تزکیہ نفس کے ساتھ صاحب کشف و کرامات ولی الله کے حکم سے شیطان کو آپ کی راہ میں آنے سے روک سکتا ہے آخرت میں بخشش کے لیے.اولیاء اللہ کی صحبت سے دنیا میں بھی نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے جو جنت میں لے کر جارے ہیں اور اولیاء اللہ روز محشر بھی اللہ کے حضور شفاعت فرمائیں گے بخاری, کتاب الادب جلد 5 صفحہ 2236, رقم 5654مسلم, کتاب التوبہ جلد 4 صفحہ 2108, رقم 2752