سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے مخالف نہیں، ان کی ایک سال توسیع کی تجویز دی ہے،پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں سے متعلق حکومت کو 9 نکاتی تجاویز پیش کر دیں۔
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ہماری تجاویز مناسب نہیں تو بات چیت کرسکتے ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ ملک کا وزیر خارجہ نہ ہو،ایسی حکومت نہیں دیکھی جس میں وزیر خارجہ نہ ہو۔
آصف زرداری نے بتایا کہ ہماری تجویز میں شامل ہے کہ قیام کی تاریخ سے فوجی عدالت کی مدت ایک سال ہوگی،ان عدالتوں کی سربراہی فوجی افسر کے ساتھ سیشن اور ایڈیشنل ججز بھی کریں گے، چیف جسٹس فوجی عدالتوں کے ججز نامزد کریں گے،24 گھنٹے میں ملزم کو ریمانڈ کےلیے عدالت میں پیش کیاجائے گا،ملزم کو پسند کا وکیل ،کونسل اور ہائی کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہو گا، آئین کا حصہ قانون شہادت بھی لاگوہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی فوج کے ساتھ ہیں، فوج ہو یا حکومت ہمارے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے ہیں،اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لےجائیں گے، ہم تجاویز دے رہے ہیں فوجی عدالتوں کی مخالفت نہیں کر رہے،ہمارا کام فوج کی دل شکنی نہیں کرنا دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا ہے، قانون ایسا ہو جس میں دہشت گردی کی بھی تعریف آجائے، سندھ اور پنجاب کے لیے رینجرز کے نوٹیفکیشن میں فرق ہے، سندھ میں رینجرز کے اختیارات دوسرے صوبے سے مختلف ہیں، دہشت گردی کےلیے جٹ بلیک کی اصطلاح تھی، لیکن جٹ بلیک میں ڈاکٹر عاصم آگئے۔
اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ برانڈکون ساہے ؟ جس پر آصف زرداری نے اس سے پوچھا کہ کیا ہم چائے بیچ رہے ہیں؟
آصف زرداری نے کہا کہ نان اسٹیٹ ایکٹر ملک کے لیے نقصان دہ ہیں،ہم ان سے لڑنے کیلئے تیار ہیں، ہم نے پہلے بھی ضمانتی بن کر دوستوں سے قانون منظور کرایا، حکومت کے پاس سڑکیں توڑ کر بنانے کے پیسے ہیں نیشنل ایکشن پلان کے لیے نہیں،لاہور میں ملتان روڈ سال میں 3بار ٹوٹتی ہے، نیشنل ایکشن پلان ناکام ہوا ہے تو دوستوں کی مدد سے اسے مضبوط بناناہے،جب حکومت کو پرواہ نہیں تو ہمیں کیا،ہمارے دور میں سوات آپریشن ہوا،ایک ملین آئی ڈی پیز کو واپس بھیجا گیا۔