اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر (ن) لیگی اور پی ٹی آئی اراکین الجھ پڑے جس کے باعث ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں 2 گھنٹے 17 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا جس سے اظہار خیال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر ایوان میں پاناما لیکس کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس سپریم کورٹ میں ہے جس کے جنوری تک نتائج نکلنے کی امید ہے تاہم تحریک انصاف یہ مقدمہ پارلیمنٹ میں بھی لے آئی ہے اور ہم اپنا مؤقف سپریم کورٹ میں بھی پیش کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیس میں قطری شہزاد کا خط بھی زیر بحث لایا گیا ہےجس پر قوم اور کورٹ میں بحث ہورہی ہے اس لیے خط کے بعد پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے کے لیے وزیراعظم کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ ان کی جانب سے سامنے آنے والے دو مختلف بیانات کی وضاحت چاہتے ہیں، جب تک وزیراعظم ایوان میں وضاحت نہیں کرتے ہماری تسلی نہیں ہوگی، عمران خان کی طرف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وزیراعظم آئیں اور سچ بتائیں۔
شاہ محمود کے بعد ایوان میں جیسے ہی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو تحریک انصاف کے اراکین نے نعرے بازی کی اور اپوزیشن لیڈر کو بھی بات نہ کرنے دی جس کے بعد اسپکر نے دانیال عزیز کو بولنے کی اجازت دی تو تحریک انصاف کے اراکین نے پھر احتجاج شروع کردیا۔
دانیال عزیز نے پی ٹی آئی ارکان پر طنز کرتے ہوئے کہا جانتا ہوں کہ کنٹینر کی زندگی سے نکلنا کتنا مشکل ہے، انہوں نے تحریک انصاف کے اراکین کو کہا کہ آپ لوگوں نے تنخواہیں لے لی ہیں اب آرام سے بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جے کے تمام صحافی دو نمبر ہیں، یہ کوئی ادارہ نہیں میں ان سب کو جانتا ہوں۔
دانیال عزیز کی تقریر کے دوران شیریں مزاری کی جانب سے مسلسل آوازیں کسنے پر اسپیکر ایاز صادق نے انہیں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ کی پہلے ہی ایک ویڈیو چل رہی ہے آپ آرام سے بیٹھ جائیں، جس کے بعد شیریں مزاری نے ایک بار پھر بولنے کی کوشش کی تو اسپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ اب آپ بڑی ہوچکی ہیں آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ایوان میں بغیر مائیک کے بات نہیں کرتے۔ شیریں مزاری کی جانب سے مسلسل مداخلت پر دانیال عزیز نے کہا کہ آپ اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں دیکھیں۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز بھی تحریک انصاف اور (ن) لیگی اراکین کے آپس میں الجھنے کے بعد اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا تھا جب کہ اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں اور اسپیکر کو اجلاس آئندہ روز کے لیے ملتوی کرنا پڑا تھا۔