چیف ایڈیٹر: محمد جاویدعظیمی
جمعرات, جنوری 21, 2021
Chief Editor : Muhammad Javed Azeemi
Daily Roshni Urdu | روزنامہ روشنی انٹرنیشنل
Web & Mobile Application Development
  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • کھیلوں کی دنیا
  • نگارشات
  • صحت
  • معروف شخصیات
  • اداریہ
  • وڈیوز/پیغامات
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • کھیلوں کی دنیا
  • نگارشات
  • صحت
  • معروف شخصیات
  • اداریہ
  • وڈیوز/پیغامات
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ
No Result
View All Result
Daily Roshni Urdu | روزنامہ روشنی انٹرنیشنل
No Result
View All Result
صفحہ اول نگارشات

مارکیٹنگ کا جادو!

مارچ 31, 2017
میں نگارشات
0 0
مارکیٹنگ کا جادو!
0
شئیر کیا گیا
0
بار دیکھا گیا
Share on FacebookShare on Twitter


میں نے ویٹر کی توجہ ڈش نمبر 65 کی طرف مبذول کرائی اور مسکرا کر پوچھا ”یہ کیسی رہے گی“ ویٹر نے جھک کر مینو کارڈ دیکھا اور مسکرا کر بولا ” یہ رائسینیا ہے‘ یہ ہمارے ریستوران کی مشہور ترین ڈش ہے‘ یہ آپ کےلئے پرفیکٹ رہے گی“ وہ اس کے بعد سیدھا ہوا اور نہایت شستہ انگریز میں ڈش کے اجزاءاور اس کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے لگا‘

اس نے بتایا ڈش کے چاول برازیل کے قدرتی کھیتوں میں قدرتی کھاد میں پروان چڑھتے ہیں‘ زیرہ چین کے دور دراز علاقوں سے منگوایا جاتا ہے‘ دھنیا‘ دالیں اور نمک انڈیا سے لایا جاتا ہے‘ یہ سارے اجزاءفرانس کے نیم گرم چشموں کے پانی میں دھوئے جاتے ہیں‘ یہ جاپانی مٹی کی ہانڈی میں ڈالے جاتے ہیں‘ ان میں ملائیشیا کا کوکونٹ آئل ملایا جاتا ہے‘ ڈش کو ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور یہ کھانا آخر میں برطانوی پلیٹ میں ڈال کر میرے سامنے رکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔میں اس نجیب الطرفین ڈش کے پس منظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مجھے محسوس ہوا میں نے ڈش نمبر65 پر انگلی رکھ کر اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘ میں نے مینو کارڈ فولڈ کر کے ویٹر کے حوالے کیا‘ لمبی سانس لی اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘ ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوا تھا‘ میں لوگوں کو کھانا کھاتے‘ گپ شپ کرتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا‘ میرا آرڈر بیس منٹ میں تیار ہونا تھا‘ میں یہ وقت دائیں بائیں دیکھ کر گزارتا رہا‘ میں نے بڑی مشکل سے وقت پورا کیا‘ مجھے آخر میں دو ویٹر اپنی طرف آتے دکھائی دیئے‘ ایک نے چاندی کی بڑی سی ٹرے اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرا میرے آرڈر کو پروٹوکول دے رہا تھا‘ پروٹوکول آفیسر نے مسکرا کر میری طرف دیکھا‘

میرے سامنے پڑی پلیٹ اٹھائی‘ جگہ بنائی‘ نہایت عزت کے ساتھ ٹرے میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور میرے سامنے رکھ دی‘ میں اشتیاق کے عالم میں پلیٹ پر جھک گیا‘ دونوں ویٹرز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ”انجوائے یور میل سر“ کہا اور لیفٹ رائیٹ کرتے ہوئے واپس چلے گئے‘ میری پلیٹ کے ایک کونے میں کھیرے کی دو قاشیں پڑی تھیں‘

اس سے ایک انچ کے فاصلے پر سبز دھنیے کی چٹنی تھی اور اس چٹنی سے دو انچ کے فاصلے پر چار چمچ کے برابر چاولوں کی ڈھیری تھی‘ میں نے چھری کے ساتھ وہ ڈھیری کھولی‘ چاولوں سے کانٹا بھرا‘ وہ کانٹا منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی میری ہنسی نکل گئی‘ اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ رائسینیا پھیکی کھچڑی تھا اور میں کھچڑی کی ان چار چمچوں کےلئے بیس منٹ انتظار کرتا رہا تھا‘ میں نے لمبا سانس لیا‘ کھیرے کی قاش منہ میں رکھی‘

کوکا کولا کا لمبا گھونٹ بھرا‘ کھچڑی (معذرت چاہتا ہوں) رائسینیا کو زہر مار کیا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کر دیا‘ و ہ بل کی بجائے ڈیزرٹس کا مینو کارڈ لے آیا اور مجھے انوکھی انوکھی سویٹ ڈشز چیک کرنے کا مشورہ دینے لگا‘ میں نے نہایت شائستگی کے ساتھ معذرت کر لی‘ وہ مایوس ہو کر واپس گیا اور بل لے آیا‘ میں نے بل کو غور سے دیکھا‘

مجھے کوکا کولا کا ایک گلاس پانچ سو روپے میں پڑا اور چار چمچ پھیکی کھچڑی اڑھائی ہزار روپے میں‘ بل میں سروس چارجز اور جی ایس ٹی بھی شامل تھا‘ یہ سب ملا کر پونے چار ہزار روپے بن گئے ‘ میں نے پے منٹ کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا‘ ریستوران کے آدھے عملے نے مجھے جھک کر رخصت کیا‘ باوردی دربان نے دروازہ کھولا‘ میری گاڑی پورچ میں آ گئی‘ میں گاڑی میں بیٹھ گیا‘ ریستوران کا بیرونی عملہ بھی میرے سامنے جھک گیا‘ مجھے بڑی عزت کے ساتھ روانہ کیا گیا۔

میں راستے میں سوچنے لگا‘ پونے چار ہزار روپے میں چار چمچ کھچڑی‘ کیا یہ ظلم نہیں؟ہاں یہ ظلم تھا لیکن میں اپنی فطرت کے برعکس اس ظلم پر خاموش رہاں‘ کیوں؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا‘ میں منہ پھٹ آدمی ہوں‘ میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بات کہہ سکتا ہوں لیکن میں اس ریستوران میں یہ ظلم چپ چاپ کیوں سہہ گیا؟ میں کھوجتا رہا یہاں تک کہ وجہ کا سرا میرے ہاتھ میں آگیا‘ یہ سب ریستوران کی مارکیٹنگ کا کمال تھا‘

مارکیٹنگ کھچڑی کو دنیا کی بہترین اور مہنگی ڈش بھی بنا سکتی ہے اور اس ڈش کی زد میں آنے والے مظلوموں کے منہ پر ٹیپ بھی لگا سکتی ہے اور مظلوم کے پاس ظلم سہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ مجھے ہنسنا چاہیے بھی تھا‘ میں بھول گیا تھا ہم مارکیٹنگ کی اس ایج میں زندہ ہیں جس میں ٹیلی ویژن کا اشتہار یہ فیصلہ کرتا ہے مجھے کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہیے‘

مجھے کس کمپنی کی چائے‘ دودھ‘ چینی‘ انڈے‘ شیمپو‘ صابن‘ ڈٹرجنٹ پاﺅڈر‘ پانی‘ فریج اور اے سی خریدنا چاہیے اور مجھے کس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیادہ فرحت محسوس ہو گی وغیرہ وغیرہ‘ یہ مارکیٹنگ ہے جو کھچڑی کو رائسینیا‘ آلو کے چپس کو فرنچ فرائز‘ چھلی کو کارن سٹک‘ لسی کو یوگرٹ شیک اور برف کے گولے کو آئس بال بنا دیتی ہے‘ کمپنی اپنی مارکیٹنگ کے زور پر دس روپے کی چیز ہزار روپے میں فروخت کرتی ہے اور گاہک کو اعتراض کی جرا¿ت تک نہیں ہوتی‘

میں یہ بھی بھول گیا تھا‘ یہ مارکیٹنگ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں ہوتی‘ مارکیٹنگ کی ضرورت انسانوں اور ملکوں کو بھی ہوتی ہے مثلاً آپ اسامہ بن لادن‘ صدام حسین‘ کرنل قذافی  کی مثال لے لیں‘یہ چاروں مارکیٹنگ کا تازہ ترین ثبوت ہیں‘ امریکا نے دس سال اسامہ بن لادن‘ صدام حسین اور کرنل قذافی کی نیگیٹو مارکیٹنگ کی‘ یہ ان تینوں کو سولائزیشن کےلئے عظیم خطرہ ثابت کرتا رہا یہاں تک کہ پوری دنیا نے انہیں ولن تسلیم کر لیا‘

امریکا نے اس نیگیٹو مارکیٹنگ کی آڑ میں پوری دنیا کا نقشہ‘ پوری دنیا کی فلاسفی بدل دی‘ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر پہنچ گئی لیکن یہ دنیا ”تین عظیم ولن“ کی ہلاکت پر امریکا کےلئے تالیاں بجاتی رہی‘‘ آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجئے‘ بھارت ممالک کی مارکیٹنگ کا خوفناک ثبوت ہے‘ بھارت کے نیشنل ڈیٹا سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 2016ءمیں سب سے زیادہ بم دھماکے بھارت میں ہوئے‘

بھارت کی دس ریاستوں چھتیس گڑھ‘ مغربی بنگال‘ مقبوضہ کشمیر‘ کیرالہ‘ منی پور‘ اڑیسہ‘ تامل ناڈو‘ آندھیرا پردیش‘ پنجاب اور ہریانہ میں پچھلے سال 337 بم دھماکے ہوئے‘ یہ تعداد 2015ءکے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ تھی‘ 2015ءمیں بھارت میں 268 دھماکے ہوئے تھے ‘ عراق 2016ءمیں دوسرے نمبر پر رہا ‘وہاں 221 دھماکے ہوئے‘ پاکستان کا نمبر تیسرا تھا

یہاں 161 دھماکے ہوئے جبکہ افغانستان 132 دھماکوں کے ساتھ چوتھے‘ ترکی 92 دھماکوں کے ساتھ پانچویں اور تھائی لینڈ 71 دھماکوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہا‘ بھارت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں دس برسوں سے ہر سال اوسطاً 227 دھماکے ہوتے ہیں لیکن آپ کمال دیکھئے بھارت اس کے باوجود ”شائننگ انڈیا“ ہے ‘ یہ دنیا میں سیاحت‘ موسیقی‘ فلم‘ انڈسٹری اور سپورٹس کا بڑا مرکز ہے‘

وہاں کامن ویلتھ گیمز بھی ہوتی ہیں‘ ورلڈ کپ بھی اور آئی پی ایل بھی‘ بھارت میں میچز کے دوران پورا صوبہ فوج کے حوالے کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی انڈیا کی طرف انگلی نہیں اٹھاتا جبکہ تیسرے نمبر پر ہونے باوجود دنیا پاکستان کو خطرناک ترین ملک سمجھتی ہے‘ یہاں 8 سال سے کرکٹ اور سیاحت بند ہیں‘ دنیا کے خوف کا یہ عالم ہے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے دوبئی میں بیٹھ کر پاکستانی حکام سے میٹنگ کرتے ہیں۔

یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ ہم نے کبھی سوچا‘ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکوں کے باوجود کیوں شائننگ ہے اور ہم تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود دنیا کا خطرناک ترین ملک کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے ہم مارکیٹنگ میں مار کھا رہے ہیں‘ ہمارا پرسیپشن خراب ہے‘ہمیں ہرحال میں مارکیٹنگ کی اچھی ٹیم چاہیے‘ ایک ایسی ٹیم جو ہماری کھچڑی کو رائسینیا بنا دے.

شئیرTweetشئیر
پچھلی خبر

ماروی میمن کو برطانوی دارالعوام کے اسپیکرز ڈیموکریسی ایوارڈ سے نواز دیا گیا

اگلی خبر

جنوبی کوریا کی برطرف صدر پارک گئیون گرفتار

متعلقہ خبریں

کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  (قسط نمبر56)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر56)

جنوری 21, 2021
کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر55)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر55)

جنوری 20, 2021
کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  (قسط نمبر54)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر54)

جنوری 19, 2021
کلر تھراپی۔۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  (قسط نمبر53)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر53)

جنوری 18, 2021
کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  (قسط نمبر52)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر52)

جنوری 16, 2021
کلر تھراپی۔۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  (قسط نمبر51)
سفیران وطن کی خبریں

کلر تھراپی۔۔۔۔مولف۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی (قسط نمبر51)

جنوری 15, 2021

روزنامہ ڈیلی روشنی ایک جدید اور منفرد اخبار ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر خاص میں موجود پاکستانیوں کے مسا ئل اور روز مرہ معمولات کو منظر عام پر لانے میں مصروف عمل ہے۔ روزنامہ ڈیلی روشنی کا اصل مقصد عوام کے مسا ئل کو اجاگر کرنا اور عوام کی اصلاح کرنا ہے

روشنی

  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • ہالینڈ کی خبریں
  • آسٹریا کی خبریں
  • سفیران وطن کی خبریں
  • اللہ کے دوست
  • سلسلہ عظیمیہ
  • بچوں کی دنیا
  • شعبہ خواتین
  • معروف شخصیات
  • ہالینڈ کی روشن ڈائری
  • روشنی لائبریری آن لائن

Copyright © 2020. All rights reserved. thedailyroshni.com
All logos and images are trademarks or copyrighted content of their respective owners

  • About Us
  • Contact Us
  • Privacy policy
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • اداریہ
  • صحت
  • کھیلوں کی دنیا
  • مقبول خبریں
  • نگارشات
  • ویڈیوز
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ
  • سفیران وطن کی خبریں
  • ہالینڈ کی خبریں
  • آسٹریا کی خبریں
  • سلسلہ عظیمیہ
  • شعبہ خواتین
  • روشنی لائبریری آن لائن
  • اللہ کے دوست
  • اقوال زریں
  • شاعری اور موسیقی
  • (فخر پاکستان ( انٹرویوز
  • بچوں کی دنیا
  • ہنسنا منع ہے

Copyright © 2020. All rights reserved. thedailyroshni.com
All logos and images are trademarks or copyrighted content of their respective owners

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In