
ہیں۔ اس رو کا اندازہ بہت ہی شاذ ہوتا ہے۔ اگر یہ رو کسی ایک ذرہ پریاکسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہو جائے اور تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے تو دور دراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
اس رو کا پہلا اثر دماغ پر ہوتا ہے۔ جہاں سے ام الدماغ کے ذریعہ اسپائنل کارڈ میں سرایت کر جاتا ہے اور باریک ترین ریشوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس تصرف یا تقسیم سے حواس بنتے ہیں۔ حواس میں سب سے پہلی حس نگاہ ہے آنکھ کی پتلی پر جب کوئی عکس پڑتا ہے تو وہ دماغ کے باریک ترین ریشوں میں سنسناہٹ پیدا کر دیتا ہے یہ ایک مستقل برقی رو ہے اگر اس کا رخ صحیح ہے تو آدمی بالکل صحت مند ہے۔ اگر اس کا رخ صحیح نہیں ہے تو دماغ کی فضا کا رنگ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ دماغ میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اعصاب اس رنگ کے پریشر کو برداشت نہیں کر سکتے آخر میں یہ رنگ اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ مثلا آسمانی رنگ سے نیلا رنگ بن جاتا ہے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ درمیان میں جو مرحلے پڑتے ہیں وہ بے اثر نہیں ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے کے زیر اثر آدمی کچھ وہمی ہو جاتا ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے مرحلے رونما ہوتے رہتے ہیں رنگ گہرا ہو جاتا ہے اور وہم کی قوتیں بڑھ جاتی ہیں۔ باریک ترین ریشے
بھی اس تصرف کا اثر قبول کرتے ہیں اب کیفیت مختلف اعصاب میں مختلف شکلیں پیدا کر دیتی ہے۔ باریک اعصاب میں بہت ہلکی اور معمولی اور تنومند اعصاب میں مضبوط اور طاقتور۔ اسی طرح یہ مرلے گہرے نیلے رنگ میں تبدیلیاں شروع کر دیتے ہیں
۔ نیلا رنگ
نیلا رنگ دو طرح کا ہوتا ہے ہلکا نیلا اور گہرا نیلا۔ سب سے پہلے ہلکے نیلے رنگ کا اثر دماغی خلیوں پر ہوتا ہے۔ اگرچہ دماغی خلیوں کا رنگ ہلکا نیلا الگ الگ ہوتا ہے لیکن ان خلیوں کی دیواریں ہلکی اور موٹی ہوتی ہیں۔ پھر ان میں رنگوں کو چھاننے کے اثرات بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ جب اپنے ہلکےنیلے رنگ کو چھانتا ہے تو اس رنگ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح لاکھوں خلیے مل کر اپنا تصرف کرتے ہیں جس سے تخیل بن جاتا ہے اور اس تخیل کا عملی مظاہرہ ہو جاتا ہے کبھی کبھی ان خلیوں کا رنگ اتنا تبدیل ہو
جاتا ہے کہ نگاہ انہیں بالکل سرخ سبززرد وغیرہ رنگوں میں دیکھنے لگتی ہے۔ اس لئے کہ باہر سے جو روشنیاں جاتی ہیں ان میں اسپیس (space) نہیں ہوتا بلکہ خلیوں کے تصرف سے اسپیس (space) بنتا ہے۔ خلیوں کا تصرف جب اسپیس بنا تا ہے تو آنکھوں کے ذریعہ باہر سے جانے والی کرنوں کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے نتیجہ میں رنگوں کی تبدیلیاں یہاں تک واقع ہوتی ہیں کہ وہ ساٹھ تک گنے جا سکتے ہیں دراصل رنگ ہی حواس بناتے ہیں۔
آسمانی رنگ خلیوں میں ان کی بساط کے مطابق عمل کرتا ہے۔ آسمانی